یہ گردش حالات یہ افکار زندگی
کٹ جائے جیسے بھی ہو شب تار زندگی
رکھتا ہے اس کو کتنے مسائل میں گھیر کر
آزاد ہو نہ جائے گرفتار زندگی
اب اور کیا نثار کریں تجھ پہ اے حیات
سب کچھ لٹا چکے سر بازار زندگی
میں کیا کہوں کہ شرم سی آتی ہے دوستوں
جب دیکھتا ہوں پستیٔ کردار زندگی
کیا دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ بدل گئے
رفتار زندگی نہ وہ گفتار زندگی
کیا خاک کم ہوں تاجؔ یہ آلام روزگار
ہے زندگی کے ساتھ یہ آزار زندگی
غزل
یہ گردش حالات یہ افکار زندگی
ریاست علی تاج