یہ گرد راہ یہ ماحول یہ دھواں جیسے
ہوا کے رخ پہ ہو تحریر داستاں جیسے
ہمارا ربط و تعلق ہے چند شاموں کا
شجر پہ طائر موسم کا آشیاں جیسے
عجیب خوف سا ہے پتھروں کی زد پر ہوں
بدن ہو اپنا کوئی کانچ کا مکاں جیسے
یہ آسمان و زمیں کا طلسم کب ٹوٹے
ہر اک وجود معلق ہو درمیاں جیسے
لب و دہن سے کوئی کام ہی نہیں لیتا
ہر ایک بات ہے نا قابل بیاں جیسے

غزل
یہ گرد راہ یہ ماحول یہ دھواں جیسے
فاروق مضطر