EN हिंदी
یہ غم نہیں ہے کہ اب آہ نارسا بھی نہیں | شیح شیری
ye gham nahin hai ki ab aah-e-na-rasa bhi nahin

غزل

یہ غم نہیں ہے کہ اب آہ نارسا بھی نہیں

حبیب احمد صدیقی

;

یہ غم نہیں ہے کہ اب آہ نارسا بھی نہیں
یہ کیا ہوا کہ مرے لب پہ التجا بھی نہیں

ستم ہے اب بھی امید وفا پہ جیتا ہے
وہ کم نصیب کہ شائستۂ جفا بھی نہیں

نگاہ ناز عبارت ہے زندگی جس سے
شریک درد تو کیا درد آشنا بھی نہیں

سمجھ رہا ہوں امانت متاع صبر کو میں
اگرچہ اب نگہ صبر آزما بھی نہیں

وہ کاروان نشاط و طرب کہاں ہمدم
جو ڈھونڈھئے تو کہیں کوئی نقش پا بھی نہیں

ہے دل کے واسطے شمع امید و مشعل راہ
وہ اک نگاہ جسے دل سے واسطہ بھی نہیں

کوئی تبسم جاں بخش کو ترستا ہے
شہید عشوۂ رنگیں کا خوں بہا بھی نہیں

یہ کیوں ہے شعلۂ بیتاب کی طرح مضطر
مری نظر کہ ابھی لطف آشنا بھی نہیں

بہ شکل قصۂ دار و رسن نہ ہو مشہور
وہ اک فسانۂ غم تم نے جو سنا بھی نہیں

تمام حرف و حکایت مٹا گئی دل سے
نگاہ ناز نے کہنے کو کچھ کہا بھی نہیں

وہ کشتۂ کرم یار کیا کرے کہ جسے
بہ ایں تباہیٔ دل شکوۂ جفا بھی نہیں