یہ فقیری ہے قناعت کے سوا کیا جانے
کون کیا دے کے گیا دست دعا کیا جانے
آگ تن میں تو لگا لینا کوئی کھیل ہے کیا
کتنے مجبور دیے ہوں گے ہوا کیا جانے
اس کو کرنا ہے تہ خاک سو کرتی جائے
کون ہے سیم بدن موج بلا کیا جانے
وہ تو دریاؤں کو سیراب کئے جاتی ہے
سوکھے کھیتوں کی ضرورت کو گھٹا کیا جانے
اشک آنکھوں میں بھرے ہوں تو نظارا کیسا
کانپتا ہاتھ کوئی بند قبا کیا جانے
کوئی زندہ نہ بچے وہ تو یہی چاہتے ہیں
کتنا سنتا ہے خداؤں کا خدا کیا جانے
اس سے پہلے جو کبھی چومتے پھولوں کو فہیمؔ
کون سا غم ہے ہمیں باد صبا کیا جانے

غزل
یہ فقیری ہے قناعت کے سوا کیا جانے
فہیم جوگاپوری