یہ دل کہتا ہے کوئی آ رہا ہے
نظر کہتی ہے وہ بہلا رہا ہے
ہر اک کے دل پہ کرتا ہے حکومت
وہ اپنی سلطنت پھیلا رہا ہے
کسی کی دسترس میں ہے مگر وہ
کبھی آ کر ہمیں ملتا رہا ہے
کبھی دیتا ہے دل کو زخم گہرے
کبھی لگتا ہے وہ سہلا رہا ہے
خبر اک اس کے آنے کی سنی تھی
دیا گھر رات بھر جلتا رہا ہے
کہیں گے لوگ میرے بعد سارے
وہ جیسا بھی رہا اچھا رہا ہے
کہاں پر آ کے اخترؔ رک گئے ہو
چلو آؤ زمانہ جا رہا ہے
غزل
یہ دل کہتا ہے کوئی آ رہا ہے
اختر امان