EN हिंदी
یہ دل جو مضطرب رہتا بہت ہے | شیح شیری
ye dil jo muztarib rahta bahut hai

غزل

یہ دل جو مضطرب رہتا بہت ہے

بیدل حیدری

;

یہ دل جو مضطرب رہتا بہت ہے
کوئی اس دشت میں تڑپا بہت ہے

کوئی اس رات کو ڈھلنے سے روکے
مرا قصہ ابھی رہتا بہت ہے

بہت ہی تنگ ہوں آنکھوں کے ہاتھوں
یہ دریا آج کل بہتا بہت ہے

بوقت شام اکٹھے ڈوبتے ہیں
دل اور سورج میں یارانہ بہت ہے

بہت ہی راس ہے صحرا لہو کو
کہ صحرا میں لہو اگتا بہت ہے

مبارک اس کو اس کے تر نوالے
مجھے سوکھا ہوا ٹکڑا بہت ہے

بیاض اس واسطے خالی ہے میری
مجھے افلاس نے بیچا بہت ہے

بتوں کا نام بھی پڑھتا ہے بیدلؔ
خدا کا نام بھی لیتا بہت ہے