یہ دیوانے کبھی پابندیوں کا غم نہیں لیں گے
گریباں چاک جب تک کر نہ لیں گے دم نہیں لیں گے
لہو دیں گے تو لیں گے پیار موتی ہم نہیں لیں گے
ہمیں پھولوں کے بدلے پھول دو شبنم نہیں لیں گے
یہ غم کس نے دیا ہے پوچھ مت اے ہم نشیں ہم سے
زمانہ لے رہا ہے نام اس کا ہم نہیں لیں گے
محبت کرنے والے بھی عجب خوددار ہوتے ہیں
جگر پر زخم لیں گے زخم پر مرہم نہیں لیں گے
غم دل ہی کے ماروں کو غم ایام بھی دے دو
غم اتنا لینے والے کیا اب اتنا غم نہیں لیں گے
سنوارے جا رہے ہیں ہم الجھتی جاتی ہیں زلفیں
تم اپنے ذمہ لو اب یہ بکھیڑا ہم نہیں لیں گے
شکایت ان سے کرنا گو مصیبت مول لینا ہے
مگر عاجزؔ غزل ہم بے سنائے دم نہیں لیں گے
غزل
یہ دیوانے کبھی پابندیوں کا غم نہیں لیں گے
کلیم عاجز