یہ دھند یہ غبار چھٹے تو پتا چلے
سورج کا حال رات کٹے تو پتا چلے
چہروں کے خد و خال سلامت ہیں یا نہیں
اب آئینوں سے گرد ہٹے تو پتا چلے
ظلمت کے کاروبار میں اس کا بھی ایک دن
چہرہ غبار شب سے اٹے تو پتا چلے
امید کی یہ ننھی کرن واہمہ نہ ہو
اب چادر سیاہ پھٹے تو پتا چلے
بکھرا ہوا ہے میرا قبیلہ کہاں تلک
سوغات درد پھر سے مٹے تو پتہ چلے
گھر میں وہ اک پرانی سی تصویر تھی کہ ہے
سیل بلا کا زور گھٹے تو پتہ چلے
غزل
یہ دھند یہ غبار چھٹے تو پتا چلے
شعیب نظام