یہ دور کم نظراں ہے تو پھر صلہ کیسا
یہ اپنا عہد ہے اس عہد کا گلا کیسا
بہت دنوں سے نہیں مجھ کو اضطراب غزل
رکا ہوا ہے خیالوں کا قافلہ کیسا
کہاں یہ شام کہاں میرے آشنا چہرے
سمٹ رہا ہے تصور میں فاصلہ کیسا
کہاں یہ رات کہاں تیری بوئے پیراہن
چلا تھا آج خیالوں کا سلسلہ کیسا
کئی چراغ کئی صورتیں کئی سائے
گزر رہا ہے نہ جانے یہ قافلہ کیسا
غزل
یہ دور کم نظراں ہے تو پھر صلہ کیسا
رضی اختر شوق