یہ دشت و دمن کوہ و کمر کس کے لیے ہے
ہر لمحہ زمیں گرم سفر کس کے لیے ہے
کس کس کے مقابل ہے مری قوت بازو
بپھری ہوئی موجوں میں بھنور کس کے لیے ہے
جا جا کے پلٹ آتے ہیں کس کے لیے موسم
یہ شام شفق رات سحر کس کے لیے ہے
ہیں کس کے تعلق سے مری آنکھ میں آنسو
مٹھی میں صدف کی یہ گہر کس کے لیے ہے
الفاظ ہیں مفہوم سے لبریز تو کیوں ہیں
گر ہے تو دعاؤں میں اثر کس کے لیے ہے
بے نیند گزر جاتی ہیں کس کے لیے راتیں
یہ کاوش فن عرض ہنر کس کے لیے ہے
کس کے لیے ڈھلتی ہیں مری فکر کی شامیں
یہ قلب حزیں دیدۂ تر کس کے لیے ہے
اٹھتا ہے سوالوں سے سوالوں کا دھندلکا
سب اس کے لیے ہے وہ مگر کس کے لیے ہے
غزل
یہ دشت و دمن کوہ و کمر کس کے لیے ہے
نشتر خانقاہی