یہ درد لا زوال تمہیں کون دے گیا
سرمایۂ جمال تمہیں کون دے گیا
موسیقیوں کی چاندنی نکھری ہے لفظ لفظ
یہ عشرت خیال تمہیں کون دے گیا
اس وادیٔ سکون و مسرت کے باوجود
یہ رنج یہ ملال تمہیں کون دے گیا
کب تک تلاش کیجیئے آسودہ حالیاں
افسردہ ماہ و سال تمہیں کون دے گیا
دل کے قریب ہجر کی رت خیمہ زن ہوئی
تہنیت وصال تمہیں کون دے گیا
مفقود ہو گئی ہیں یہاں لب کشائیاں
یہ ڈھیر بھر سوال تمہیں کون دے گیا
رعنائیوں کے لب پہ مکرر سوال ہے
بے عیب خد و خال تمہیں کون دے گیا

غزل
یہ درد لا زوال تمہیں کون دے گیا
قیصر قلندر