یہ داستاں ہے شہیدوں کی خوں چکیدہ ہے
قلم بھی دست مورخ میں سر بریدہ ہے
حیات ایسی زلیخا کہ آج کا یوسف
گناہگار ہے اور پیرہن دریدہ ہے
لہو جلاؤ چراغوں میں روشنی کے لیے
ہمارے دور کا سورج تو شب گزیدہ ہے
دبا دبا سا یہ طوفاں گھٹی گھٹی ہلچل
ہواؤں میں کوئی پیغام نا رسیدہ ہے
تمام مظہر فطرت ترے غزل خواں ہیں
یہ چاندنی بھی ترے جسم کا قصیدہ ہے
نہ بجھ سکے گی مری پیاس آنسوؤں سے اثرؔ
یہ ابر کیوں مری حالت پہ آبدیدہ ہے
غزل
یہ داستاں ہے شہیدوں کی خوں چکیدہ ہے
اظہار اثر