EN हिंदी
یہ چلتی پھرتی سی لاشیں شمار کرنے کو | شیح شیری
ye chalti-phirti si lashen shumar karne ko

غزل

یہ چلتی پھرتی سی لاشیں شمار کرنے کو

حامدی کاشمیری

;

یہ چلتی پھرتی سی لاشیں شمار کرنے کو
بہت ہے کام سر رہ گزار کرنے کو

گزر رہے ہیں بہ عجلت بہار کے ایام
پڑا ہے رخت بدن تار تار کرنے کو

گلے کی سمت مرے اپنے ہاتھ بڑھتے ہیں
رہا ہی کیا ہے بھلا اعتبار کرنے کو

بدن کو چاٹ لیا ہے سیاہ کائی نے
ابھی تو کتنے سمندر ہیں پار کرنے کو

ابھی سے چاند ستاروں کی آنکھیں پتھرائی
پڑی ہے رات ابھی انتظار کرنے کو

سمجھ میں آ نہ سکی یہ ادا گلابوں کی
چمن میں آتے ہیں سینہ فگار کرنے کو