یہ بجھے بجھے ستارے یہ دھواں دھواں سویرا
کہیں آبرو کو ڈس لے نہ یہ باؤلا اندھیرا
تری ناگ ناگ زلفیں کہیں رام ہو نہ جائیں
کہ اٹھا ہے بین لے کے زر و مال کا سپیرا
مرے شیشموں کی چھاؤں میں ہیں دھوپ کے ٹھکانے
مری ندیوں کی لہروں میں ہے آگ کا بسیرا
وہیں میں نے آرزوؤں کے حسیں دیئے جلائے
کہ جہاں شراب پی کر مجھے آندھیوں نے گھیرا
اے نسیم زاد جھونکوں کی حسیں حسیں کلیلو!
ذرا جھنگ رنگ ٹیلوں کی طرف بھی ایک پھیرا

غزل
یہ بجھے بجھے ستارے یہ دھواں دھواں سویرا
شیر افضل جعفری