یہ بھی تو کمال ہو گیا ہے
ظاہر وہ جمال ہو گیا ہے
جس کام میں ہم نے ہاتھ ڈالا
وہ کام محال ہو گیا ہے
گزری ہوئی عمر کا ہر اک پل
منت کش حال ہو گیا ہے
دل کون سا تازہ دم تھا پہلے
اب اور نڈھال ہو گیا ہے
کچھ روز جو دن پھرے ہیں اپنے
وہ شامل حال ہو گیا ہے
جو خواب سے خون سے کمایا
وہ مفت کا مال ہو گیا ہے
یہ دیکھ کہ تیرے سامنے کون
سرتاپا سوال ہو گیا ہے
اے خوف زوال تیرے ہاتھوں
سب رو بہ زوال ہو گیا ہے
غزل
یہ بھی تو کمال ہو گیا ہے
ابرار احمد