یہ بھی ممکن ہے کہ آنکھیں ہوں تماشا ہی نہ ہو
راس آنے لگے ہم کو تو یہ دنیا ہی نہ ہو
کہیں نکلے کوئی اندازہ ہمارا بھی غلط
جانتے ہیں اسے جیسا کہیں ویسا ہی نہ ہو
ہو کسی طرح سے مخصوص ہمارے ہی لیے
یعنی جتنا نظر آتا ہے وہ اتنا ہی نہ ہو
ٹکٹکی باندھ کے میں دیکھ رہا ہوں جس کو
یہ بھی ہو سکتا ہے وہ سامنے بیٹھا ہی نہ ہو
وہ کوئی اور ہو جو ساتھ کسی اور کے ہے
اصل میں تو وہ ابھی لوٹ کے آیا ہی نہ ہو
خواب در خواب چلا کرتا ہے آنکھوں میں جو شخص
ڈھونڈنے نکلیں اسے اور کہیں رہتا ہی نہ ہو
چمک اٹھا ہو ابھی روئے بیاباں اک دم
اور یہ نظارہ کسی اور نے دیکھا ہی نہ ہو
کیفیت ہی کوئی پانی نے بدل لی ہو کہیں
ہم جسے دشت سمجھتے ہیں وہ دریا ہی نہ ہو
مسئلہ اتنا بھی آسان نہیں ہے کہ ظفرؔ
اپنے نزدیک جو سیدھا ہے وہ الٹا ہی نہ ہو
غزل
یہ بھی ممکن ہے کہ آنکھیں ہوں تماشا ہی نہ ہو
ظفر اقبال