یہ بے کس و بے قرار چہرے
صدیوں کے یہ سوگوار چہرے
مٹی میں پڑے دمک رہے ہیں
ہیروں کی طرح ہزار چہرے
لے جا کے انہیں کہاں سجائیں
یہ بھوک کے شکار چہرے
افریقہ و ایشیا کی زینت
یہ نادر روزگار چہرے
کھوئی ہوئی عظمتوں کے وارث
کل رات کے یادگار چہرے
غازے سے سفید مے سے رنگیں
اس دور کے داغ دار چہرے
گزرے ہیں نگاہ و دل سے ہو کر
ہر طرح کے بے شمار چہرے
مغرور انا کے گھونسلے میں
بیٹھے ہوئے کم عیار چہرے
قابل التفات آنکھیں
نا قابل اعتبار چہرے
ان سب سے حسین تر ہیں لیکن
رندوں کے گناہ گار چہرے
غزل
یہ بے کس و بے قرار چہرے
علی سردار جعفری