EN हिंदी
یہ بے دلی ہے تو کشتی سے یار کیا اتریں | شیح شیری
ye be-dili hai to kashti se yar kya utren

غزل

یہ بے دلی ہے تو کشتی سے یار کیا اتریں

احمد فراز

;

یہ بے دلی ہے تو کشتی سے یار کیا اتریں
ادھر بھی کون ہے دریا کے پار کیا اتریں

تمام دولت جاں ہار دی محبت میں
جو زندگی سے لیے تھے ادھار کیا اتریں

ہزار جام سے ٹکرا کے جام خالی ہوں
جو آ گئے ہیں دلوں میں غبار کیا اتریں

بسان خاک سر کوئے یار بیٹھے ہیں
اب اس مقام سے ہم خاکسار کیا اتریں

نہ عطر و عود نہ جام و سبو نہ ساز و سرور
فقیر شہر کے گھر شہریار کیا اتریں

ہمیں مجال نہیں ہے کہ بام تک پہنچیں
انہیں یہ عار سر رہ گزار کیا اتریں

جو زخم داغ بنے ہیں وہ بھر گئے تھے فرازؔ
جو داغ زخم بنے ہیں وہ یار کیا اتریں