یہ بستیاں ہیں کہ مقتل دعا کیے جائیں
دعا کے دن ہیں مسلسل دعا کیے جائیں
کوئی فغاں کوئی نالہ کوئی بکا کوئی بین
کھلے گا باب مقفل دعا کیے جائیں
یہ اضطراب یہ لمبا سفر یہ تنہائی
یہ رات اور یہ جنگل دعا کیے جائیں
بحال ہو کے رہے گی فضائے خطۂ خیر
یہ حبس ہوگا معطل دعا کیے جائیں
گزشتگان محبت کے خواب کی سوگند
وہ خواب ہوگا مکمل دعا کیے جائیں
ہوائے سرکش و سفاک کے مقابل بھی
یہ دل بجھیں گے نہ مشعل دعا کیے جائیں
غبار اڑاتی جھلستی ہوئی زمینوں پر
امنڈ کے آئیں گے بادل دعا کیے جائیں
قبول ہونا مقدر ہے حرف خالص کا
ہر ایک آن ہر اک پل دعا کیے جائیں
غزل
یہ بستیاں ہیں کہ مقتل دعا کیے جائیں
افتخار عارف