EN हिंदी
یہ بستی پیار کی نعمت سے خالی ہوتی جاتی ہے | شیح شیری
ye basti pyar ki neamat se Khaali hoti jati hai

غزل

یہ بستی پیار کی نعمت سے خالی ہوتی جاتی ہے

نسیم عباسی

;

یہ بستی پیار کی نعمت سے خالی ہوتی جاتی ہے
کہ ہر حاتم کی صورت بھی سوالی ہوتی جاتی ہے

کسی سے پوچھ لو تعبیر اپنے اپنے خوابوں کی
دیار مصر میں پھر خشک سالی ہوتی جاتی ہے

یہ کیسے رنگ اترے ہیں جنہیں دیکھا نہیں جاتا
یہ کیسی صبح پھوٹی ہے جو کالی ہوتی جاتی ہے

پرانے مقبروں میں بھی دراڑیں پڑتی جاتی ہیں
نئی تعمیر بھی نقش خیالی ہوتی جاتی ہے

بہاؤ آئے دن عمر رواں کا گھٹتا جاتا ہے
یہ ٹھاٹھیں مارتی ندی بھی نالی ہوتی جاتی ہے