EN हिंदी
یہ برف پوش مناظر بھی شعلہ خو نکلے | شیح شیری
ye barf-posh manazir bhi shoala-KHu nikle

غزل

یہ برف پوش مناظر بھی شعلہ خو نکلے

خاور لدھیانوی

;

یہ برف پوش مناظر بھی شعلہ خو نکلے
یہ کب ہوا کہ دھرو پاؤں تو لہو نکلے

وہ جب بھی آتے ہیں سورج کے رتھ پہ آتے ہیں
یہ اس لیے کہ کسی کی نہ آرزو نکلے

ہجوم اتنا ہو جس کا نہ ہو شمار کہ جب
مری کتاب کا پرچم بنا کے تو نکلے

جھپکتے دیکھیں کسی نے نہ منتظر آنکھیں
یہ چاک وہ ہیں جو بیگانۂ رفو نکلے

نقاب تابش جلوہ سے آب آب ہوا
کہ جیسے دھوپ میں کوئی کنار جو نکلے

ہجوم بادہ کشاں میں بھی ہم نے دیکھا ہے
بہت سے لوگ ہمیشہ ہی با وضو نکلے

ہلاک ہوتا ہے کب کوئی دوسروں کے لیے
کیا جو غور تو ہم اپنے ہی عدو نکلے

یہ میرے جذب نہاں کا ہے معجزہ شاید
کہ دل میں جھانک کے دیکھوں تو تو ہی تو نکلے

یہ ہے بہار کہ چربہ بہار کا خاورؔ
کہ دھند اوڑھ کے عشاق و خوب رو نکلے