یہ بات تری چشم فسوں کار ہی سمجھے
صحرا بھی نظر آئے تو گلزار ہی سمجھے
اک بات جسے سن کے حیا آئے چمن کو
اک بات جسے نرگس بیمار ہی سمجھے
اس طرح دکاں دل کی سجاؤں کہ زمانہ
دیکھے تو اسے مصر کا بازار ہی سمجھے
کیا شام و سحر اس کی ہے کیا اس کے شب و روز
دنیا کو بھی جو کاکل و رخسار ہی سمجھے
کہتا ہی رہا دل کہ یہ صحرائے جنوں ہے
ہم تھے کہ اسے سایۂ دیوار ہی سمجھے
وہ بھی تو چمن زاد تھے جو شاخ چمن کو
گردن پہ لٹکتی ہوئی تلوار ہی سمجھے
ہر چند تھا دامن میں لیے وسعت کونین
اس دل کو مگر نقطۂ پرکار ہی سمجھے
زاہد کو بھلا کب تھی یہاں فرصت تفہیم
رحمت کو تری تیرے گنہ گار ہی سمجھے
وہ حال رضاؔ تم نے بنا رکھا ہے دل کا
دیکھے جو کوئی عشق کا آزار ہی سمجھے

غزل
یہ بات تری چشم فسوں کار ہی سمجھے
رضا جونپوری