یہ بات سچ ہے کہ تیرا مکان اونچا ہے
تو یہ نہ سوچ ترا خاندان اونچا ہے
کمال کچھ بھی نہیں اور شہرتوں کی طلب
سنبھل کے تیر چلانا نشان اونچا ہے
کہیں عذاب نہ بن جائے اس کا سایہ بھی
ستون ٹوٹے ہوئے سائبان اونچا ہے
مجھے یقین ہے تو شرط ہار جائے گا
کہ دسترس سے تری آسمان اونچا ہے
وہ قاتلوں کو چھڑا لائے گا عدالت سے
ہے اس کی بات مدلل بیان اونچا ہے
قبول کرتا نہیں یہ دلوں کے رشتوں کو
سماج تیرے مرے درمیان اونچا ہے
اسی غرور میں داناؔ سروں سے چھت بھی گئی
ترے مکان سے میرا مکان اونچا ہے
غزل
یہ بات سچ ہے کہ تیرا مکان اونچا ہے
عباس دانا