یہ بات الگ ہے مرا قاتل بھی وہی تھا
اس شہر میں تعریف کے قابل بھی وہی تھا
آساں تھا بہت اس کے لیے حرف مروت
اور مرحلہ اپنے لیے مشکل بھی وہی تھا
تعبیر تھی اپنی بھی وہی خواب سفر کی
افسانۂ محرومی منزل بھی وہی تھا
اک ہاتھ میں تلوار تھی اک ہاتھ میں کشکول
ظالم تو وہ تھا ہی مرا سائل بھی وہی تھا
ہم آپ کے اپنے ہیں وہ کہتا رہا مجھ سے
آخر صف اغیار میں شامل بھی وہی تھا
میں لوٹ کے آیا تو گلستان ہوس میں
تھا گل بھی وہی شور عنادل بھی وہی تھا
دعوے تھے ظفرؔ اس کو بہت با خبری کے
دیکھا تو مرے حال سے غافل بھی وہی تھا
غزل
یہ بات الگ ہے مرا قاتل بھی وہی تھا
ظفر اقبال