یہ باریک ان کی کمر ہو گئی
کہ نظروں میں تار نظر ہو گئی
پڑا دونوں زلفوں کا ان کی جو عکس
نزاکت سے دوہری کمر ہو گئی
گلے چڑھنے مستی میں مستوں کے منہ
بڑی دختر رز یہ نڈر ہو گئی
وہ اب کاٹ تیغ نگہ کا نہیں
کچھ آنکھوں پر ان کی نظر ہو گئی
مرا نقد دل مار بیٹھے حسیں
یہ دولت ادھر سے ادھر ہو گئی
کیا ان کے منہ پہ جو وصف دہن
فقط رنجش اس بات پر ہو گئی
کھلی خواب غفلت سے پیری میں آنکھ
شب نوجوانی سحر ہو گئی
لفافے پر اپنا نہ لکھا تھا نام
خطا اتنی اے نامہ بر ہو گئی
کیا ہنس کے سن کر سوال وصال
تمہیں جرأت اب اس قدر ہو گئی
قدم رکھتے ہی کھڑکھڑا مار ریچھ
عدو ان کی زنجیر در ہو گئی
اجل سے کوئی کہہ دے پھر جائے آپ
مسیحا کو میرے خبر ہو گئی
نہ جھوٹوں بھی اتنا کسی نے کہا
شب غم تری بے سحر ہو گئی
برے یا بھلے حال گزری قلقؔ
غرض ہر طرح سے بسر ہو گئی
غزل
یہ باریک ان کی کمر ہو گئی
ارشد علی خان قلق