یہ اور بات ہے کہ مداوائے غم نہ تھا
لیکن ترا خلوص توقع سے کم نہ تھا
کیا کیا فراغتیں تھیں میسر حیات کو
وہ دن بھی تھے کہ تیرے سوا کوئی غم نہ تھا
کچھ ہم گرفت گردش دوراں میں آ گئے
کچھ دل بھی تیرے عشق میں ثابت قدم نہ تھا
آئے ہیں یاد تجھ سے بچھڑ کر وہ لوگ بھی
جن سے تعلقات بگڑنے کا غم نہ تھا
وہ دور عشق محض بھی کیا وقت تھا عظیمؔ
جب دل پہ نقش مہر و نشان ستم نہ تھا

غزل
یہ اور بات ہے کہ مداوائے غم نہ تھا
عظیم مرتضی