یہ عرض شوق ہے آرائش بیاں بھی تو ہو
ادا شناس تو ہے آنکھ خونچکاں بھی تو ہو
خدا خفا ہے تو سچے ہیں ناصحان عزیز
ہمارے لب پہ کبھی شکوۂ بتاں بھی تو ہو
یہ رنگ و نکہت و ترکیب و لفظ خیرہ سری
ز راہ دیدہ بہ دل موج خوں رواں بھی ہو
ہمیں بھی نغمہ گری پر ہے ناز بات تو کر
ہمیں بھی جاں نہیں پیاری ہے امتحاں بھی تو ہو
ابھی تو ہوں در و دیوار ہی سے محو کلام
حریف دولت غم کوئی راز داں بھی تو ہو
قتیل ناز ہوں اے وائے اعتماد وفا
وہ التفات کرے پہلے بد گماں بھی تو ہو
کسی کو ان سے محبت کسی کو مجھ سے حسد
ملیں وہ مجھ سے مگر کوئی درمیاں بھی تو ہو
غزل
یہ عرض شوق ہے آرائش بیاں بھی تو ہو
سید عابد علی عابد