یہ الگ بات کہ ہر سمت سے پتھر آیا
سر بلندی کا بھی الزام مرے سر آیا
زندگی چھوڑ نے آئی مجھے دروازے تک
رات کے پچھلے پہر میں جو کبھی گھر آیا
بس دعا ہے کہ الٰہی یہ کوئی خواب نہ ہو
کوئی سایہ مرے سائے کے برابر آیا
بارہا سوچا کہ اے کاش نہ آنکھیں ہوتیں
بارہا سامنے آنکھوں کے وہ منظر آیا
کیا کہیں اب تو یہ عادت نہیں جاتی ہم سے
جھوٹ بھی بولے تو سچ بن کے زباں پر آیا
میں نہیں حق میں زمانے کو برا کہنے کے
اب کے میں کھا کے زمانے کی جو ٹھوکر آیا
سرخیٔ مے بھی ٹھہرتی نہیں ہر چہرے پر
بو الہوس بھی اسی مے خانے سے ہو کر آیا
غزل
یہ الگ بات کہ ہر سمت سے پتھر آیا
خلیلؔ الرحمن اعظمی