یہ عجب راستہ ہے جس پہ لگایا ہے مجھے
محو حیرت ہوں کہ کیا چیز بنایا ہے مجھے
تیری دوری بھی ہے مشکل تری قربت بھی محال
کس قدر تو نے مری جان ستایا ہے مجھے
تو کسی پھول کسی آنکھ کے پردے میں رہا
تو نے کب اپنا حسیں چہرہ دکھایا ہے مجھے
میرے فردوس کی نہریں مری خاطر ہیں تو کیوں
پیاس کے دشت میں حیران پھرایا ہے مجھے
ساری مخلوق سے تقویم میں احسن ہوں میں
اور پھر آگ کا ایندھن بھی بنایا ہے مجھے
اپنی تخریب پہ نادم ہوں نہ تعمیر پہ خوش
تو نے ڈھایا ہے مجھے تو نے بنایا ہے مجھے
غزل
یہ عجب راستہ ہے جس پہ لگایا ہے مجھے
جمیل یوسف