یہ عہد کیا ہے کہ سب پر گراں گزرتا ہے
یہ کیا طلسم ہے کیا امتحاں گزرتا ہے
وہ قحط لطف ہے ہر دم ترے فقیروں پر
ہزار وسوسہ آتش بجاں گزرتا ہے
جو خاک ہو گئے تیرے فراق میں ان کا
خیال بھی کبھی اے جان جاں گزرتا ہے
جب اس کی بزم سے چل ہی پڑے تو سوچنا کیا
کہ عرصۂ غم ہجراں کہاں گزرتا ہے
کبھی وہ چہرۂ مانوس بھی دکھائی دے
گلی سے روز نیا کارواں گزرتا ہے
ظفرؔ بسنت بھی ہے اور بہار کی رت بھی
فلک پہ تختۂ گل کا گماں گزرتا ہے

غزل
یہ عہد کیا ہے کہ سب پر گراں گزرتا ہے
ظفر عجمی