یہ آنکھ طنز نہ ہو زخم دل ہرا نہ لگے
مجھے قرار تو ہو یا اسے حیا نہ لگے
فشار جاں ہو تو کیفیت مکمل ہو
وہ اضطراب تو ہو اضطراب سا نہ لگے
وہ روبرو ہو تو آرائش بیاں بھی نہ ہو
کہ میں کہوں تو کسی اور کا کہا نہ لگے
معاملات محبت مزاج رکھتے ہیں
طبیعتیں ہوں جو یکساں تو فاصلہ نہ لگے
خزاں رسیدہ چمن میں بھی جھولتی ہو بہار
گلوں سے رنگ کلی سے مہک جدا نہ لگے
یہی تو ہوتی ہے وضع شگفتن مہتاب
میان ابر ہو یا آسماں کھلا نہ لگے
وہی تو درد ہے جو درد ماسوا سمجھے
رفاقتیں ہوں تو عالم نگار خانہ لگے
الم تو خیر الم ہے کہ پائیدار نہیں
وبال ہے جو خوشی بھی گریز پا نہ لگے
الجھ رہی ہیں خیالی اڑان سے آنکھیں
کہیں نوشتۂ دیوار بے صدا نہ لگے

غزل
یہ آنکھ طنز نہ ہو زخم دل ہرا نہ لگے
سید امین اشرف