یہ آج آئے ہیں کس اجنبی سے دیس میں ہم
تڑپ گئی ہے نظر چشم آشنا کے لئے
وہ ہاتھ جن سے تھا کل چاک دامن افلاک
وہ ہاتھ آج اٹھانے پڑے دعا کے لئے
یہ میں نے مانا جدائی مرا مقدر ہے
مگر یہ بات نہ منہ سے کہو خدا کے لئے
یہ راہرو تھے کبھی راہ زندگی کا سراغ
یہ راہرو کہ بھٹکتے ہیں رہنما کے لئے
غزل
یہ آج آئے ہیں کس اجنبی سے دیس میں ہم (ردیف .. ے)
صوفی تبسم