یہ آہ پردہ در ایسی ہوئی عدو میری
حباب ہو گئی آخر کو آبرو میری
نہ اپنی خود غرضی ہے نہ ہی شکایت دوست
ہے عشق و حسن کے مابین گفتگو میری
کوئی نکلنے نہ دے گا زمین ہو کہ فلک
زمانے بھر کے مقابل ہے آرزو میری
قنا کے بعد میں دیتا نہیں کسی کو جواب
صفت تھی آپ کی جو اب ہوئی وہ خوں میری
زباں ہلے نہ ہلے دل ہلے تو کام چلے
یہ زلزلہ ہو تو آ جائے گفتگو میری
بھلا دیا مجھے تو نے تجھے میں کھو بیٹھا
نہ میں ترا ہوا اے زندگی نہ تو میری
مجھے زمانے سے شکوہ نہیں کہ بے حس ہے
سمجھنے والے سمجھتے ہیں گفتگو میری
مرے کریم مری شرم حشر میں رکھ لے
عرق کے ساتھ ٹپکتی ہے آبرو میری
یہ ایک وادیٔ پر خار عشق تھی ثاقبؔ
الجھ کے رہ گئی ہر دل میں گفتگو میری
غزل
یہ آہ پردہ در ایسی ہوئی عدو میری
ثاقب لکھنوی