یہ آہ بے اثر کیا ہو یہ نخل بے ثمر کیا ہو
نہ ہو جب درد ہی یا رب تو دل کیا ہو جگر کیا ہو
بغل گیر آرزو سے ہیں مرادیں آرزو مجھ سے
یہاں اس وقت تو اک عید ہے تم جلوہ گر کیا ہو
مقدر میں یہ لکھا ہے کٹے گی عمر مر مر کر
ابھی سے مر گئے ہم دیکھیے اب عمر بھر کیا ہو
مروت سے ہو بیگانہ وفا سے دور ہو کوسوں
یہ سچ ہے نازنیں ہو خوبصورت ہو مگر کیا ہو
لگا کر زخم میں ٹانکے قضا تیری نہ آ جائے
جو وہ سفاک سن پائے بتا اے چارہ گر کیا ہو
قیامت کے بکھیڑے پڑ گئے آتے ہی دنیا میں
یہ مانا ہم نے مر جانا تو ممکن ہے مگر کیا ہو
کہا میں نے کہ نظمؔ مبتلا مرتا ہے حسرت میں
کہا اس نے اگر مر جائے تو میرا ضرر کیا ہو
غزل
یہ آہ بے اثر کیا ہو یہ نخل بے ثمر کیا ہو
نظم طبا طبائی