یقین ٹوٹ چکا ہے گمان باقی ہے
ہمارے سر پہ ابھی آسمان باقی ہے
چلے تو آئے ہیں ہم خواب سے حقیقت تک
سفر طویل تھا اب تک تکان باقی ہے
انہیں یہ زعم کہ فریاد کا چلن نہ رہا
ہمیں یقین کہ منہ میں زبان باقی ہے
ہر ایک سمت سے پتھراؤ ہے مگر اب تک
لہولہان پرندے میں جان باقی ہے
فسانہ شہر کی تعمیر کا سنانے کو
گلی کے موڑ پہ ٹوٹا مکان باقی ہے
ملا نہ جو ہمیں قاتل کی آستیں پہ حسنؔ
اسی لہو کا زمیں پہ نشان باقی ہے

غزل
یقین ٹوٹ چکا ہے گمان باقی ہے
حسن کمال