یقیں کو دار سے حاصل کیا ہے
عقیدہ پیار سے حاصل کیا ہے
ترے اقرار پر شک تھا تبھی تو
تجھے انکار سے حاصل کیا ہے
اسے تلوار ہی جینے نہ دے گی
جسے تلوار سے حاصل کیا ہے
علاج زندگی اس بار ہم نے
کسی بیمار سے حاصل کیا ہے
چکانی ہوگی قیمت اس کی ناظمؔ
جسے بازار سے حاصل کیا ہے
غزل
یقیں کو دار سے حاصل کیا ہے
ناظم نقوی