EN हिंदी
یقین ہو تو کوئی راستہ نکلتا ہے | شیح شیری
yaqin ho to koi rasta nikalta hai

غزل

یقین ہو تو کوئی راستہ نکلتا ہے

منظور ہاشمی

;

یقین ہو تو کوئی راستہ نکلتا ہے
ہوا کی اوٹ بھی لے کر چراغ جلتا ہے

سفر میں اب کے یہ تم تھے کہ خوش گمانی تھی
یہی لگا کہ کوئی ساتھ ساتھ چلتا ہے

غلاف گل میں کبھی چاندنی کے پردے میں
سنا ہے بھیس بدل کر بھی وہ نکلتا ہے

لکھوں وہ نام تو کاغذ پہ پھول کھلتے ہیں
کروں خیال تو پیکر کسی کا ڈھلتا ہے

رواں دواں ہے ادھر ہی تمام خلق خدا
وہ خوش خرام جدھر سیر کو نکلتا ہے

امید و یاس کی رت آتی جاتی رہتی ہے
مگر یقین کا موسم نہیں بدلتا ہے