یقیں ہے جس پہ وہی بد گماں نکلتا ہے
مری زمین سے اس کا مکاں نکلتا ہے
ہمارے شہر میں ہوتا ہے سانحہ لیکن
خطا کہاں کی ہے غصہ کہاں نکلتا ہے
یہ اور بات کہ وہ پاک سر زمیں ہے مگر
وہاں کی خاک سے ہندوستاں نکلتا ہے
مرے لیے تو اکیلا خدا بہت ہے مگر
تمہارے واسطے سارا جہاں نکلتا ہے
سیاہ رات ستارے بجھاتی رہتی ہے
یہ میرا خواب ستارہ کہاں نکلتا ہے
سفر ہے دھوپ سمندر کا اور جزیرے سا
کہیں کہیں پہ کوئی سائباں نکلتا ہے
منا رہا ہے وہ جشن شباب مقتل میں
ہر ایک لاش کا چہرہ جواں نکلتا ہے
تمہارے گھر میں ابھی کتنی روشنی ہوگی
ہمارے گھر سے ابھی تک دھواں نکلتا ہے
کہا کسی نے سیہ پوش ہو گیا خورشیدؔ
سنا کسی نے دم کہکشاں نکلتا ہے
غزل
یقیں ہے جس پہ وہی بد گماں نکلتا ہے
خورشید اکبر

