EN हिंदी
یقیں گم ہو چکا ہم سے گماں محفوظ رکھا ہے | شیح شیری
yaqin gum ho chuka humse guman mahfuz rakkha hai

غزل

یقیں گم ہو چکا ہم سے گماں محفوظ رکھا ہے

مرغوب علی

;

یقیں گم ہو چکا ہم سے گماں محفوظ رکھا ہے
خیال و خواب سا رنگیں جہاں محفوظ رکھا ہے

ہوا مسمار سب لیکن جہاں تم گھر بناتے تھے
وہ دل کا ایک ٹکڑا جان جاں محفوظ رکھا ہے

شکستہ ہو چکے جل بجھ چکے تاریخ شاہد ہے
فضاؤں میں مگر اب تک دھواں محفوظ رکھا ہے

زمیں پر جو بھی ممکن تھا وہ سب کچھ کر لیا یا رب
ہے ہم سے دور تیرا آسماں محفوظ رکھا ہے

نہیں ممکن مگر یوں بھی ہوا دل کے سمندر میں
ہوئی غرقاب کشتی بادباں محفوظ رکھا ہے