یقیں بناتا ہے کوئی گماں بناتا ہے
جو آدمی ہے الگ داستاں بناتا ہے
شکست کرتا ہے زنجیر خانہ و محراب
اور ایک حلقۂ آوارگاں بناتا ہے
گل وجود سے کرتا ہے کسب کوزۂ جاں
خمار سود میں لیکن زیاں بناتا ہے
کمال بے خبری ہے اگر بہم ہو جائے
مگر یہ زیست کو آساں کہاں بناتا ہے
پس چراغ ارادہ کوئی تو ہے آذرؔ
جو میرے شعلۂ دل کو دھواں بناتا ہے
غزل
یقیں بناتا ہے کوئی گماں بناتا ہے
آذر تمنا