یکساں ہے دھواں جلتے خرابے کی مہک تک
سناٹے کا گھر سے دیا سنسان سڑک تک
پہلے ہی کہا تھا مرے دامن سے پرے رہ
آ ہی گیا تو بھی انہیں شعلوں کی لپک تک
اب میں ہوں فقط اور کوئی ہانپتا صحرا
آئی تھی مرے ساتھ ان اشکوں کی کمک تک
دو کشتیاں کاغذ کی بہا لیں چلو ہم تم
پھر تو ہمیں ملنا نہیں خوابوں کی پلک تک
اتنی تو سزا سخت نہ آتی ہوئی رت دے
رخصت ہو جو بیتے ہوئے موسم کی کسک تک
دیوار ہی نکلی پس دیوار فسوں رنگ
کہرا ہی بکھرتا ملا چہروں کی دھنک تک
اندر سے سلگتے ہو مصور جو کھنڈر سے
کھو آئے ہو جا کر کہاں آنکھوں کی چمک تک
غزل
یکساں ہے دھواں جلتے خرابے کی مہک تک
مصور سبزواری