EN हिंदी
یخ بستہ ٹھنڈکوں میں اجالا جڑا ہوا | شیح شیری
yaKH-basta ThanDakon mein ujala jaDa hua

غزل

یخ بستہ ٹھنڈکوں میں اجالا جڑا ہوا

ناصر شہزاد

;

یخ بستہ ٹھنڈکوں میں اجالا جڑا ہوا
کہرے کے ساتھ راہ پہ کوڑا پڑا ہوا

اب بھی بلند تر ہیں سپاہ خدا کے سر
پرچم ہے اب بھی چوب علم پر چڑھا ہوا

نمرود کی چتا کہیں پاٹا ہے کربلا
ہر جگ میں امتحان ہمارا کڑا ہوا

بے آبرو ہے فن ابھی آواز بے بدن
سر پر ابھی ہے ہجر کا بادل کھڑا ہوا

چاہت کی انتہا کبھی تیری مری وفا
اجرا کا ماجرا کبھی کچا گھڑا ہوا

کچھ خواب کچھ گلاب تھے چہرے کے آس پاس
دیکھا تجھے تو حوصلہ دل کو بڑا ہوا

جگ جیونوں سے روح تری روح میں نہاں
جگ جیونوں سے دل ترے دل سے اڑا ہوا

دلبر کے درشنا سے درکتی ہوئی نظر
اکھیوں سڑی سلکھیوں کو نشہ لڑا ہوا

چپکی تھی پنکھڑی کوئی اس لب سے ایک شب
آموں کا بور تھا سر گیسو جھڑا ہوا