یہی تھا وقف تری محفل طرب کے لئے
چراغ دل کہ سلگتا ہے آج سب کے لئے
کبھی میں جرأت اظہار مدعا تو کروں
کوئی جواز تو ہو لطف بے سبب کے لئے
افق سے چاند کی چمپا کلی ابھرتی ہے
سجائے جاتے ہیں زیور نگار شب کے لئے
ترے گدا نے بھی ساغر کا نقرئی آنچل
کہیں سے مانگ لیا دختر عنب کے لئے
تمام عمر بہ فیض نگاہ لالہ رخاں
سند رہا ہوں اشارات چشم و لب کے لئے
چمن سے پھول کے دھوکے میں چن لئے شعلے
کف وفا کے لئے دامن طلب کے لئے
کہیں جو پرسش احوال پر وہ مائل ہوں
کہ ہم نے دل کو سنبھالا ہوا ہے جب کے لئے
مجھے خبر ہے بہت سے متاع ذوق نظر
دکان کاکل و رخسار و چشم و لب کے لئے
ستارہ صبح کا روشن تھا شام سے عابدؔ
یہی تھی موت حریفان بزم شب کے لئے
غزل
یہی تھا وقف تری محفل طرب کے لئے
سید عابد علی عابد