یہی نہیں کہ نگاہوں کو اشک بار کیا
ترے فراق میں دامن بھی تار تار کیا
متاع عشق یہی حاصل حیات یہی
خلوص نذر کیا اور دل نثار کیا
یہی بس ایک خطا وجہ بے قراری تھی
جو ریگ زار میں باراں کا انتظار کیا
زر بیاں سے مزین نقوش حسن کیے
متاع حرف کو مدحت سرائے یار کیا
پلٹ کے آ گئے نالے جو آسمانوں سے
خدا کو چھوڑ دیا کفر اختیار کیا
غزل
یہی نہیں کہ نگاہوں کو اشک بار کیا
اقبال کیفی