EN हिंदी
یہی نہیں کہ نظر کو جھکانا پڑتا ہے | شیح شیری
yahi nahin ki nazar ko jhukana paDta hai

غزل

یہی نہیں کہ نظر کو جھکانا پڑتا ہے

عزیز احمد خاں شفق

;

یہی نہیں کہ نظر کو جھکانا پڑتا ہے
پلک اٹھاؤں تو اک تازیانہ پڑتا ہے

وہ ساتھ میں ہے مگر سب امانتیں دے کر
تمام بوجھ ہمیں کو اٹھانا پڑتا ہے

میں اس دیار میں بھیجا گیا ہوں سر دے کر
قدم قدم پہ جہاں آستانہ پڑتا ہے

اندھیرا اتنا ہے اب شہر کے محافظ کو
ہر ایک رات کوئی گھر جلانا پڑتا ہے

تمام بزم خفا ہے مگر نہ جانے کیوں
مشاعرے میں شفقؔ کو بلانا پڑتا ہے