یہی نہیں کہ نظر کو جھکانا پڑتا ہے
پلک اٹھاؤں تو اک تازیانہ پڑتا ہے
وہ ساتھ میں ہے مگر سب امانتیں دے کر
تمام بوجھ ہمیں کو اٹھانا پڑتا ہے
میں اس دیار میں بھیجا گیا ہوں سر دے کر
قدم قدم پہ جہاں آستانہ پڑتا ہے
اندھیرا اتنا ہے اب شہر کے محافظ کو
ہر ایک رات کوئی گھر جلانا پڑتا ہے
تمام بزم خفا ہے مگر نہ جانے کیوں
مشاعرے میں شفقؔ کو بلانا پڑتا ہے
غزل
یہی نہیں کہ نظر کو جھکانا پڑتا ہے
عزیز احمد خاں شفق