یہی نہیں کہ فقط پیار کرنے آئے ہیں
ہم ایک عمر کا تاوان بھرنے آئے ہیں
وہ ایک رنگ مکمل ہو جس سے تیرا وجود
وہ رنگ ہم ترے خاکے میں بھرنے آئے ہیں
ٹھٹھر نہ جائیں ہم اس عجز کی بلندی پر
ہم اپنی سطح سے نیچے اترنے آئے ہیں
یہ بوند خون کی لوح کتاب رخ کے لیے
یہ تل سر لب و رخسار دھرنے آئے ہیں
لگا رہے ہیں ابھی خیمے غم کی وادی میں
ہم اس پہاڑ سے دامن کو بھرنے آئے ہیں
ترے لبوں کو ملی ہے شگفتگی گل کی
ہماری آنکھ کے حصے میں جھرنے آئے ہیں
نثارؔ بند قبا کھولنا محال نہ تھا
سو ہم جمال قبا بند کرنے آئے ہیں
غزل
یہی نہیں کہ فقط پیار کرنے آئے ہیں
آغا نثار