یہی ہوا ہے جو اس رہ گزر سے گزرے ہیں
ہزار حشر کے منظر نظر سے گزرے ہیں
وہ راہیں آج بھی نقش وفا سے ہیں روشن
مزاج دان محبت جدھر سے گزرے ہیں
خدا کرے نہ وہ گزریں کسی کی نظروں سے
جو سیل درد و بلا میرے سر سے گزرے ہیں
چھپائے آنکھوں میں آنسو دلوں میں درد و فغاں
وفا شناس یوں ہی تیرے در سے گزرے ہیں
تلاش یار میں ہم کیا ڈریں مصیبت سے
ہزار بار رہ پر خطر سے گزرے ہیں
کھلا گئے ہیں محبت کے پھول کانٹوں میں
تمہارے چاہنے والے جدھر سے گزرے ہیں
دل و جگر میں اجالا ہے آج تک جن کا
کچھ ایسے جلوے بھی کشفیؔ نظر سے گزرے ہیں

غزل
یہی ہوا ہے جو اس رہ گزر سے گزرے ہیں
کشفی لکھنؤی