EN हिंदी
یہی ہوا ہے جو اس رہ گزر سے گزرے ہیں | شیح شیری
yahi hua hai jo us rahguzar se guzre hain

غزل

یہی ہوا ہے جو اس رہ گزر سے گزرے ہیں

کشفی لکھنؤی

;

یہی ہوا ہے جو اس رہ گزر سے گزرے ہیں
ہزار حشر کے منظر نظر سے گزرے ہیں

وہ راہیں آج بھی نقش وفا سے ہیں روشن
مزاج دان محبت جدھر سے گزرے ہیں

خدا کرے نہ وہ گزریں کسی کی نظروں سے
جو سیل درد و بلا میرے سر سے گزرے ہیں

چھپائے آنکھوں میں آنسو دلوں میں درد و فغاں
وفا شناس یوں ہی تیرے در سے گزرے ہیں

تلاش یار میں ہم کیا ڈریں مصیبت سے
ہزار بار رہ پر خطر سے گزرے ہیں

کھلا گئے ہیں محبت کے پھول کانٹوں میں
تمہارے چاہنے والے جدھر سے گزرے ہیں

دل و جگر میں اجالا ہے آج تک جن کا
کچھ ایسے جلوے بھی کشفیؔ نظر سے گزرے ہیں