EN हिंदी
یہی ہوتا ہے اکثر زندگی میں | شیح شیری
yahi hota hai akasr zindagi mein

غزل

یہی ہوتا ہے اکثر زندگی میں

پریہ درشی ٹھا کرخیال

;

یہی ہوتا ہے اکثر زندگی میں
کہ تھوڑا غم بھی شامل ہو خوشی میں

اداس آنکھوں میں پلکوں کی نمی میں
جھلکتی تھی وفا بھی بے رخی میں

وہاں دشوار تھا خود سے بھی ملنا
تلاش یار کیا ہو بے خودی میں

گلے شکوے تو ہوتے ہی رہیں گے
چلو کچھ دیر بیٹھیں چاندنی میں

اندھیروں سے شکایت ہو تو کیا ہو
دکھائی کچھ نہ دے جب روشنی میں

نہ کوئی آرزو دل میں شفا کی
نہ حاصل ہے شفا چارہ گری میں

مثال ارجنؔ کی رکھنا یاد ہر دم
بہت آگے بڑھو گے زندگی میں

غنیمت ہے کہ اب بھی دیکھتے ہیں
ہم اپنے آپ کو اس اجنبی میں

خیالؔ اتنے نہ تھے کم ظرف پہلے
بڑی گہرائی تھی تشنہ لبی میں