EN हिंदी
یہی ہے عشق کہ سر دو مگر دہائی نہ دو | شیح شیری
yahi hai ishq ki sar do magar duhai na do

غزل

یہی ہے عشق کہ سر دو مگر دہائی نہ دو

خورشید رضوی

;

یہی ہے عشق کہ سر دو مگر دہائی نہ دو
وفور جذب سے ٹوٹو مگر سنائی نہ دو

زمیں سے ایک تعلق ہے ناگزیر مگر
جو ہو سکے تو اسے رنگ آشنائی نہ دو

یہ دور وہ ہے کہ بیٹھے رہو چراغ تلے
سبھی کو بزم میں دیکھو مگر دکھائی نہ دو

شہنشہی بھی جو دل کے عوض ملے تو نہ لو
فراز کوہ کے بدلے بھی یہ ترائی نہ دو

جواب تہمت اہل زمانہ میں خورشیدؔ
یہی بہت ہے کہ لب سی رکھو صفائی نہ دو