یہی ہے دور غم عاشقی تو کیا ہوگا
اسی طرح سے کٹی زندگی تو کیا ہوگا
ابھی تو ہم نفسوں کو ہے وہم چارہ گری
ہوئی نہ درد میں پھر بھی کمی تو کیا ہوگا
یہ تیرگی تو بہر حال چھٹ ہی جائے گی
نہ راس آئی ہمیں روشنی تو کیا ہوگا
امید ہے کہ کبھی تو لبوں پہ آئے گی
کبھی نہ آئی لبوں پر ہنسی تو کیا ہوگا
نفس نفس میں فغاں ہے نظر نظر میں ہراس
کچھ اور دن یہی حالت رہی تو کیا ہوگا
غزل
یہی ہے دور غم عاشقی تو کیا ہوگا
فارغ بخاری